انتظام مملکت
عہد نبوی میں قائم کردہ تمام اداروں میں ایک خاص ربط اور تسلسل پایا جاتا تھا- چنانچہ جملہ سیاسی اور انتظامی امور کا ارتقاء ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوا- ان اداروں کی کارکردگی کا معیار بھی دن بدن بہتر ہوتا چلا گیا- یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اداروں کی نشوو نما یکایک عمل میں نہ آئی تھی- بلکہ بتدریج حالات اور ضروریات کے پیش نظر ان کی تاسیس اور توسیع عمل میں آتی رہی- چنانچہ روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا اور ساتھ ہی مال غنیمت کے قوانین کا اجراء بھی 2 ہجری میں ہی عمل میں آیا- نبی کریم نے انتظامی اقدامات کی ابتداء مدینہ تشریف لاتے ہی کر دی تھی- شوریٰ کا قیام بھی عمل میں آیا- اگرچہ زکوٰۃ اور جزیہ کا حکم 9 ہجری میں ہوا اور غیر مسلموں کے حقوق و فرائض فتح خیبر کے بعد متعیّن ہوۓ- مملکت نبوی کے نظم و نسق کے ماخذ وحی الٰھی ، رسول اللہ صلی الله و علیھ وسلّم کے ارشادات ، عمل اور اجتہاد اسلامی معاشرے کی کڑیاں ہیں- رسول اللہ صلی الله و علیھ وسلّم حاکمیت اعلیٰ کے پابند تھے- مملکت کے مقاصد بھی حاکم حقیقی کے احکامات کی روشنی میں متعیّن کئے گئے تھے- چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ " ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات