برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دل ربا سا

  برسوں کے بعد دیکھا  اک شخص دل ربا سا

 اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا 


آبرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی 

باتیں رکی رکی سی ، لہجہ تھکا تھکا سا 


الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں 

بن جاۓ جنگلوں میں جس طرح راستہ سا 


خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی 

نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کے رت جگا سا 


پہلے بھی لوگ آۓ کتنے ہی زندگی میں 

وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا 


اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں 

تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا 


کچھ یہ کہ مدّتوں سے ہم بھی نہیں تھے روۓ 

کچھ زہر میں بجھا تھا احباب کا دلاسہ 


پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے 

پھر یوں ہوا کے جیسے دل بھی تھا آبلہ سا 


اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی 

بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا 


تیور تھے بےرخی کے انداز دوستی کا 

وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا 


ہم دشت تھے کے دریا ہم زہر تھے کے امرت 

ناحق تھا ذو نم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا 


ہم نے بھی اس کو دیکھا کل شام اتفاقاً 

اپنا بھی حال لوگو اب ہے فراز کا سا 

احمد فراز کی دیگر غزلیں 


تبصرے

مشہور اشاعتیں

فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر عائد پابندیاں ختم کر دیں

پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کا اہم اجلاس

پاکستان سپر لیگ میں کھلاڑیوں کے معاہدے- اہم معلومات

صومالیہ کے دارلحکومت موگاڈیشو میں خود کش دھماکہ 32 ہلاک 63 افراد زخمی ,حملے کی زمہ دار القاعدہ قرار