اب کس کا جشن مناتے ہو اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کا جشن مناتے ہو اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو اس تن من کا جو دو نیم ہوا
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا
اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی
اس جنگ کا جو تم ہار چکے اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پے نہ تھا اس جان کا جو واری بھی نہیں
اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بے قیمت تھا آنگن میں کھلا یا بن میں رہا
اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں
یا ان مظلوموں کا جس سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں
اس مریم کا جس کی عفّت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسیٰ کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غم خواروں میں
ان نوحہ گروں کا جن نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دم ساز ہوۓ ایسے جلّاد بھی ہوتے ہیں
ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں
یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوۓ
یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوۓ
اس شاہی کا جو دست بہ دست آئی ہے تمھارے حصّے میں
کیوں ننگ وطن کو یاد کرو کیا رکھا ہے اس قصّے میں
آنکھوں میں چھپاۓ آنکھوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیے
اس جشن میں میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں