بدن میں آگ سی چہرہ گلاب جیسا ہے

 بدن میں آگ سی چہرہ گلاب جیسا ہے 

کہ زہر غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے 


کہاں وہ قرب کہ اب تو یہ حال ہے جیسے 

تیرے فراق کا عالم بھی خواب جیسا ہے 


مگر کبھی کوئی دیکھے کوئی پڑھے تو سہی 

دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے 


وہ سامنے ہے مگر تشنگی نہیں جاتی 

یہ کیا ستم ہے کے دریا سراب جیسا ہے 


فراز سنگ ملامت سے زخم زخم سہی 

ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے 



احمد فراز کی دیگر غزلیں 

تبصرے

مشہور اشاعتیں

فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر عائد پابندیاں ختم کر دیں

پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کا اہم اجلاس

پاکستان سپر لیگ میں کھلاڑیوں کے معاہدے- اہم معلومات

صومالیہ کے دارلحکومت موگاڈیشو میں خود کش دھماکہ 32 ہلاک 63 افراد زخمی ,حملے کی زمہ دار القاعدہ قرار