اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں

 اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں 

یاد کیا تجھ کو دلائیں تیراپیمان جاناں 


یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں 


زندگی تیری عطا تھی تو تیرے نام کی ہے 

ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احسان جاناں 


دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فسردہ تو بھی 

دل کی کیا بات کریں دل تو ہے نادان جاناں 


اول اول کی محبّت کے نشے یاد تو کر 

بے پئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستان جاناں 


آخر آخر تو یہ عالم ہے کے اب ہوش نہیں 

رگ مینہ سلگ اٹھی کے رگ جان جاناں 


مدّتوں سے یہ عالم نہ توقع نہ امید 

دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں 


ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے 

ہر کوئی اپنے ہی ساۓ سے حراساں جاناں 


اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں 

سربہ زانوں ہے کوئی تو سر بہ گریبان جاناں 


جس کو دیکھو ووہی زنجیر پا بہ لگتا ہے 

شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں 


اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آۓ 

اور سے اور ہوا درد کا عنواں جاناں 


ہم کے روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے 

ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں 


ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ 

جیسے اڑتے ہوۓ اوراق پریشاں جاناں 


احمد فراز کی دیگر غزلیں 

تبصرے

مشہور اشاعتیں

جرمن لیگ کے کلب بائر لیورکیوسن کی کامیابی کی دلچسپ کہانی !

اطالوی وزیر اعظم کی مقامی باکسر انجیلینا کیرینی کی حمایت

صومالیہ کے دارلحکومت موگاڈیشو میں خود کش دھماکہ 32 ہلاک 63 افراد زخمی ,حملے کی زمہ دار القاعدہ قرار