اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوۓ پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوۓ لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لوں
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں