غضب کیا تیرے وعدے پے اعتبار کیا
غضب کیا تیرے وعدے پے اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بیقرار کیا
ہم ایسے محو نظارہ نہ تھے جو ہوش آتا
مگر تمھارے تغافل نے ہوشیار کیا
فسانہ شب غم ان کو ایک کہانی تھی
کچھ اعتبار کیا اور کچھ نا اعتبار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہاۓ بیقرار کیا
تڑپ پھر اے دل نادان کی غیر کہتے ہیں
آخر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا
بھلا بھلا کے جتایا ہے انکو راز نہاں
چھپا چھپا کے محبّت کو اشکبار کیا
تمھیں تو وعدہ دیدار ہم سے کرنا تھا
یہ کیا کیا جہاں کو امیدوار کیا
نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں
وہ بیقرار رہے جس نے بیقرار کیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں