خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں رہیں احسان تو گیا
اب شائے راز عشق گو ذلّتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
دیکھا ہے بت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ کچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں