کعبے کی ہے ہوس کبھی کوۓ بتاں کی ہے
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوۓ بتاں کی ہے
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوۓ بتاں کی ہے
مجھکو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذّت آزار کے لئے
ہردم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
حسرت برس رہی ہے میرے مزار سے
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلّی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ جو تیری زباں کی ہے
سن کر میرا فسانہ غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
کیوں کر نہ آئے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو شے جہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں