پاکستان کے معاشی و نظریاتی بحران میں فری لانسنگ بطور کیریئر

عالمگیر وبائی امراض  کے پوری دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے بعد بے روزگاری کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے- لوگوں کا رہن سہن اور انداز زندگی تبدیل ہو گیا ہے بیشتر افراد پیشہ ورانہ مہارت ہونے کے باوجود بھی با عزت روزگار کمانے سے قاصر ہیں-  تعلیم یافتہ طبقات ہوں یا کاروباری حلقے ان امراض نے سبھی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے- کئی ممالک کے تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوۓ ہیں- صحت کی سہولتوں کا فقدان لاحق ہو گیا ہے- جسمانی بیماریوں سمیت نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے- گزشتہ دوسالوں کے درمیان گھر سے کام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے- سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے سبب دفاتر میں حاضری کم رہی ہے- اگر ہم ان دو سالوں میں ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ لگائیں تو پوری دنیا میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا ہے- پیشہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شعبہ طب میں ان عالمگیر وباؤں کے نتیجے میں آلات طبّی بنانے والے کاروبار سمیت ماہر ڈاکٹرز اور نرسنگ سٹاف کی طلب میں اچانک اضافے سے ایسے ممالک کے انتظامات بری طرح متاثر ہوۓ ہیں جہاں اس مرض سے متاثرہ انسانوں کی تعداد زیادہ ہے- اشیاء ۓ خور و نوش بنانے والی کمپنیوں کی پیداوار میں توازن بگڑا ہے- مشروب بنانے والی کمپنیوں کی فروخت میں کمی مشاہدے میں آئی ہے- ای لرننگ پلیٹ فارمز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے- تیزانٹرنیٹ کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اوراس پر دنیا بھر کا انحصار بڑھ گیا ہے- بچوں کی تعلیم سے لے کر کاروبار ، شوبز اور دیگر کاروباری حلقوں سمیت حکومتی اداروں کا انحصار بھی تیز ترین انٹرنیٹ پر بڑھ گیا ہے- وبائی امراض کے اثرات سے ہونے والے نقصانات  سے بحالی میں عالمی معیشت  کو قریباً ایک دہائی کا عرصہ درکار ہے- 

ریموٹ جابز کے حوالے سے گزشتہ دو برس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک میں فری لانسنگ کا رجحان کم تھا ان میں فری لانسرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے- پاکستان میں بھی فری لانسرز کے لیے بیشتر ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز کی تعدادا میں اضافہ ہوا ہے- المیہ یہ ہے کہ بے روزگاری کی شرح اتنی بلند ہے کہ علاقائی سطح پر متحرک فری لانسنگ ویب سائٹس اور ذرائع اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے مواقع پیدا کرنےمیں مکمّل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے-  ایک اندازے کے مطابق دس ہزار روپےکی فری لانسنگ جاب کے حصول کے لیے تقریباً 400 ہنر مند افراد آپس میں مقابلہ کرتے ہیں- یہ مواقع متواتر نہ ہونے کی وجہ سے آئندہ مواقع حاصل کرنے کے لیے غیر یقینی مدّت تک انتظار کرنا پڑتا ہے- اس لیے فری لانسنگ پاکستان میں اتنا قابل انحصار ذریعہ معاش نہیں ہے- تحقیق کے مطابق اس عرصے میں ویب سائٹ ڈویلپمنٹ ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ ، کانٹینٹ تخلیق کرنا ، ڈیزائننگ اور ان سے متعلق دیگر فنون کی طلب میں اضافہ ہوا ہے. طلب بڑھی ہے تو رسد بھی اسی حساب سے بڑھی ہے- زیادہ لوگوں نے آن لائن مہارت حاصل کی ہے- اور ان فنون کو اپنے ذرائع معاش کے طور پر منتخب کیا ہے- انٹرنیٹ ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری ہے مگر پاکستان میں اس سے حاصل کی جانے والی پیداوار کا بہت قلیل حصّہ ہےجو بے روزگاری کی شرح میں کمی کرنے کے لیے نا کافی ہے، ترقی پذیر معاشروں میں  یوٹیوب ، ٹک ٹاک ، فیس بک اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے کئے جانے والے کاروباروں نے عوامی استحصال ، سامراج اور گروہی مفاد پرستی کو فروغ دیا ہے- اور یہ بات اس وثوق سے اس لیے کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں پرائیویٹ شعبوں میں بہت سے کاروبار ایسے ہیں جو قانونی کتابوں میں درج ہیں مگر وہ بغیر مکمّل تحقیق ، پاپولیشن پینی ٹریشن اسسمینٹ اورپیشہ ورانہ مہارت کے شروع کئے گئے مشن ہیں. اور ملکی معیشت کے لیے سفید ہاتھی ہیں- جس ملک میں  ڈاکٹرز ، انجینئرز ، پائلٹ ، وکیل اور دیگر پیشہ ور بنانے والے اداروں کی بہتات ہو وہاں آپ مقدار میں اضافہ کر سکتے ہیں مگر معیار میں نہیں-قصّہ مختصر فری لانسنگ کی حقیقت یہ ہے زیادہ تر فری لانسنگ جابز فراہم کرنے والے افراد لا علمی میں جدید معاشی غلامی کو فروغ دینے سے بڑھ کر کچھ زیادہ نہیں کر پا رہے- ظاہر ہے سیاسی شعور کی بہتات ہے اور اسی کو مرکز مان کر دیگر سماجی دائرے بنائے جاتے ہیں- 

 معاشرے کے مختلف طبقات میں معاشی توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مردم شماری کے ذریعے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر تعلیمی اداروں میں شعبہ تحقیق کو گراجوایشن کے معیار پر تعلیمی نصاب کا لازمی حصّہ بنانے کی کوشش کریں - جس میں اس بات کو لازم بنایا جائے کہ طلباء کو روزگار کے لیے پیشہ ورانہ انتخاب میں اعداد و شمار کی بنیاد پر آگاہی فراہم کی جائے کہ جو تعلیم وہ حاصل کریں اسے روزگار کیسے حاصل کر سکیں اور کن مضامین کا انتخاب ان کے لیے کمائی کاذریعہ بنا سکتا ہے- موجودہ حالات میں زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش واضح اور براہ راست نہیں ہے- مبہم ہے - جائز اور نا جائز کی تمیز نہیں کی جا سکتی- ملک کی پچانوے فیصد " با شعور اور غیور" عوام صرف سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے، ملک کی  سب سے مقبول جماعت فقط کارپوریٹ ڈونیشن پر کھڑی ہے اور منافقت کی معراج یہ ہے کہ عالمگیریت کے حصول کی مد میں ان اقدار کے ضیاع میں مشغول ہے جن کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے- اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پاکستان میں کارپوریٹ ٹائی کونز زیادہ تر غیر ملکی اور غیر مذہبی اور غیر سیاسی ایجنڈے کے مطابق قائم ہیں-  دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک حاصل کیا گیا ، تاریخی قتل وغارت ہوئی کتنی جانیں ضائع ہوئیں- مگر اب ان اقدار کو استحکام فراہم کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہو چکے ہیں- استدعا صرف یہ ہے کہ سیاسی سطح پر یہ منافقت ختم کی جائے، اقوام مغرب کے مقابلے میں مذہبی ، معاشرتی اور معاشی محاذ پر شکست تسلیم کی جائے اور تعمیر نو کی طرف توجہ مرکوز کی جائے- علاقائی سامراج ، اور جدید معاشی غلامی سے نجات ہی عوام کو خود دار بنا سکتی ہے- نظریاتی بحران کا بوجھ اسٹیبلشمنٹ پر نہ ڈالا جائے اپنے اپنے اہداف اور اقدار کا تعیّن  انفرادی طور پر کیا جائے اور اسے مجموعی اہداف سے ہم آہنگ کیا جائے مذہب انفرادی انتخاب ہے اس میں کوئی جبر نہیں ہے- مگر اپنا ذریعہ معاش کاروبار ہو یا نوکری براہ راست ، مستحکم اور شفاف ہونا چاہئیے- 



تبصرے

مشہور اشاعتیں

اطالوی وزیر اعظم کی مقامی باکسر انجیلینا کیرینی کی حمایت

جرمن لیگ کے کلب بائر لیورکیوسن کی کامیابی کی دلچسپ کہانی !

انتظام مملکت